جواب:
اگر اس کا والد اس وقت اپنے دین پر قائم ہو گا جو بیٹی کے دین سے مختلف ہو، تو اس کا بیٹی پر کوئی اختیار نہیں ہوگا۔ اس صورت میں بیٹی کی ولایت اُس کے قریب ترین مسلمان رشتہ دار پر منتقل ہو جائے گی۔ اگر ایسا کوئی نہیں ہے تو ولایت امام مسجد کے پاس ہوگی۔ اور اگر وہ اپنے دین پر قائم رہیں گی تو ان کا ولی ان کے والد ہوں گے، اور وہ کسی بھی طریقے سے اپنی رضا مندی دے سکتے ہیں، چاہے تحریری ہو یا ٹیلی فون کے ذریعے، جب تک کہ رضا مندی ثابت ہو۔
کچھ فقہاء کا یہ بھی کہنا ہے کہ اسلامی شریعت میں غیر مسلم والد کو اپنی ذمی بیٹی کی ولایت کا کوئی حق نہیں ہے، بلکہ یہ ولایت خود بخود مسلم ولی کو منتقل ہو جائے گی کیونکہ ولایت ایک شرعی ذمہ داری ہے جو صرف مسلمان ہی ادا کر سکتے ہیں۔ اس صورت میں بھی ولی امام مسجد ہوگا۔