View Categories

سوال253: وہ شخص جو صرف اقامت حاصل کرنے کے لیے شادی کرے اور اس نے شادی کی تمام شرائط جیسے کہ بیوی کے ساتھ رہنا یا دخول نہ کیا ہو، اس کا کیا حکم ہے؟

جواب

 پہلے تو یہ کہنا ضروری ہے کہ شرعی طور پر صحیح نکاح کے لیے کچھ ضروری ارکان ہوتے ہیں، جن کے پورا ہونے سے نکاح صحیح ہوتا ہے۔ ان ارکان میں شامل ہیں:

ایجاب و قبول، جو تمام فقہاء میں متفق علیہ ہے۔

عاقدین (یعنی نکاح کرنے والے افراد)، بعض فقہاء اس میں تفصیل کرتے ہیں، جیسے عاقد اور معقود علیہ۔

گواہ، جو اصل میں متفق علیہ ہے، سوائے اس کے کہ کسی مخصوص وقت پر گواہ ہونے میں اختلاف ہو۔ جمہور کے نزدیک گواہ ہونا عقد کے وقت ضروری ہے، اور مالکیہ کے نزدیک دخول کے وقت ضروری ہے۔

ولی، جو جمہور فقہاء کے نزدیک نکاح کا رکن ہے، لیکن احناف کے نزدیک ولی نکاح کا رکن نہیں۔

الصداق (مهر) ایک رکن ہے جو مالکیہ کے نزدیک ضروری ہے، اور دیگر مذاہب میں یہ رکن نہیں ہوتا۔

ہر رکن کے لیے کچھ مخصوص شرائط ہوتی ہیں تاکہ وہ رکن مکمل طور پر صحیح قرار پائے۔ بعض فقہاء نے ان شرائط کو ارکان میں شامل کیا ہے تاکہ کسی قسم کا انقطاع نہ ہو، جیسے کہ زوج کا مسلمان ہونا، یا بعض اس بات کو بھی رکن مانتے ہیں کہ خلوة (خلوت) ایک رکن ہے، حالانکہ یہ دراصل معقود علیہ یعنی بیوی کے لیے شرط ہے نہ کہ رکن۔

دوسری بات یہ ہے کہ نکاح کا اصل مقصد معاضہ (مبادلہ) ہوتا ہے، جیسے کہ فقہاء نے اس کو تقسیم کیا ہے، اور اس میں دو طرف ہوتے ہیں: ایک وہ جو فائدہ حاصل کرے گا اور دوسرا وہ جو فائدہ فراہم کرے گا۔

تیسری بات یہ ہے کہ معاہدات میں نیت کا کوئی اثر نہیں پڑتا کہ عقد صحیح ہوگا یا نہیں، بلکہ نیت کا تعلق صرف ثواب یا عذاب سے ہوتا ہے۔ اگر کوئی شخص کسی دوسرے کو صحیح عقد کے ذریعے بیچتا ہے لیکن اس کی نیت بری ہے، تو عقد صحیح ہوگا قانونی طور پر، لیکن دینی لحاظ سے اسے سزا ملے گی۔ اور اگر کسی نے اچھائی یا احسان کی نیت سے کوئی معاہدہ کیا، تو عقد بھی صحیح ہوگا اور وہ دینی لحاظ سے انعام پائے گا۔لہذا اگر کوئی شخص کسی عورت سے یا عورت کسی مرد سے نکاح کرتی ہے، اور اس نکاح میں تمام ارکان اور ضروری شرائط موجود ہیں، اور ان میں سے کسی کی نیت اس عقد کو رد کرنے کی ہو، تو عقد صحیح ہوگا اور ان کی نیت کو باطل سمجھا جائے گا۔