جواب:
اس سوال کا جواب اس بات پر منحصر ہے کہ آپ کی بچت اکاؤنٹ کی نوعیت کیا ہے۔ اگر اس کو قرض کے طور پر سمجھا جائے، جس میں مالی ادارہ ضمانت دے رہا ہے کہ وہ اصل رقم واپس کرے گا، تو اس صورت میں اضافی رقم (سود) ربا ہوگی اور حرام ہے۔
اگر یہ امانت کی صورت میں ہے، تو اصل رقم کی واپسی ہی ضروری ہے اور اضافی رقم کا شمار سود کے طور پر ہوگا۔ اس کے علاوہ، اگر اسے مضاربت یا کسی اور جائز معاہدہ کے تحت سمجھا جائے، تو اضافی رقم کی واپسی جائز ہو سکتی ہے۔
ہماری رائے یہ ہے کہ بینک کی بچت ایک نئی قسم کی معاہدہ ہے جس میں قرض اور امانت دونوں کی کچھ خصوصیات پائی جاتی ہیں۔ اس میں اصولی طور پر اضافی رقم (سود) حرام ہے اور اسے صدقہ کرنا جائز نہیں۔ اس صورت میں، آپ کو وہ رقم واپس کرنی چاہیے جو آپ نے سود کے طور پر حاصل کی تھی، یا پھر اسے کسی حلال مقصد کے لیے استعمال کرنا چاہیے۔اس میں مضاربت کی خصوصیت یہ ہے کہ بینک ودائع میں سرمایہ کاری سے فائدہ اٹھاتا ہے اور اس کو منافع حاصل ہوتا ہے، جبکہ اس میں یہ فرق ہے کہ خسارے کی ذمہ داری صرف بینک پر آتی ہے، مضارب پر نہیں۔
اس میں وکالت کی خصوصیت بھی ہے کیونکہ یہ ایک جائز تصرف کی اجازت دیتی ہے جس میں نیابت کی بنیاد پر آپ کے جمع شدہ پیسے کو استعمال کیا جاتا ہے، اور اس میں ضمانت اور چیز کے بدلے جواب دینے کی خصوصیت نہیں ہوتی۔
لہذا، بینک کی ودائع کی موجودہ صورت میں جو کہ فقہ قدیم میں معروف نہیں تھی، اس کے بارے میں اجتہاد کرنا ضروری ہے۔ جو لوگ اس کو مضاربت اور وکالت کے مفہوم میں دیکھتے ہیں، وہ اصل رقم پر حاصل ہونے والی اضافی رقم کو جائز سمجھ سکتے ہیں، چاہے وہ بدلتی ہوئی شرح ہو یا ثابت شرح ہو، تاہم یہ شرحیں نسبتی ہونی چاہئیں، عینی نہیں۔
شرعی طور پر یہ جائز ہے کہ ایک مستحکم شرح منافع طے کی جائے، خاص طور پر اگر اس سے کسی کی ضروریات پوری ہو سکیں، تاکہ وہ شرحوں کے اتار چڑھاؤ سے متاثر نہ ہو۔
کسی کا کہنا ہو سکتا ہے کہ بہت سے لوگ اپنے پیسے بینک میں رکھ کر ماہانہ سود پر گزارہ کرتے ہیں، لیکن بعد میں کچھ بینکوں کا بحران آ گیا، جیسے لبنان میں، جہاں بینک نہ صرف منافع نہیں دے سکے بلکہ لوگوں کی رقم تک پہنچنا بھی ممکن نہیں رہا۔ اس وجہ سے ان لوگوں کا پیسہ غائب ہو گیا۔ یہ صورتحال بالکل حقیقت ہے، جو بینکوں کی لالچ اور غیر محفوظ سرمایہ کاری کی وجہ سے ہوئی۔ اگرچہ ریاست نے ڈپازٹس کی ضمانت دی ہے، لیکن یہ مکمل رقم کی ضمانت نہیں دیتی، صرف ایک چھوٹا حصہ۔ کیا اس حقیقت کی روشنی میں پہلے دی گئی فتویٰ کا دوبارہ جائزہ نہیں لینا چاہیے؟
اس پر میرا جواب یہ ہے کہ بینکوں کے مالی بحران کے حوالے سے جو بات کی گئی، وہ اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ اصل سرمایہ پر اضافی منافع مضاربت کا حصہ ہے، اس لیے کہ:
اصول "غنم بالغرم” (منفعت اور نقصان کا تعلق) کے تحت اگر جمع کرنے والا مالیاتی بحرانوں کے خطرات میں مبتلا ہے تو اس کو نقصان کیوں اٹھانا پڑے، جب کہ منافع سے استفادہ نہیں ہو رہا؟ مثال کے طور پر لبنان کی صورتحال میں، اگر بینکوں نے منافع کمایا اور ہم نے اس پر اضافی رقم لینے سے منع کیا، تو کیا اس صورت میں بینک پر یہ لازم نہیں آتا کہ وہ سرمایہ مکمل طور پر واپس کرے جب مالی خطرات کا سامنا ہو؟
ہمیں ہر سال، ماہ یا ہفتہ کی بنیاد پر افراط زر (مہنگائی) کی قیمتوں میں تبدیلی کو بھی مدنظر رکھنا چاہیے۔ کیونکہ جو بھی اضافی رقم بینکوں کی طرف سے دی جائے، وہ افراط زر کی قیمتوں کے مقابلے میں کم پڑ سکتی ہے۔ جو شخص ماہ کے شروع میں ہزار روپے جمع کراتا ہے، وہ ماہ کے آخر میں اپنی رقم کا کم حصہ ہی حاصل کر پاتا ہے، اس لیے جوابی رقم میں افراط زر کی حقیقت کو مدنظر رکھنا ضروری ہے۔
لہذا، اس سب کو مدنظر رکھتے ہوئے، بینک کی بچت اکاؤنٹ کی اضافی رقم کو لے کر کوئی مانع نہیں ہے۔