جواب:
یہ قسم کی حدیثیں اور روایات، اگر صحیح ہوں، تو یہ وحی اور خبر کی نوعیت کی ہوتی ہیں، اور صرف حس اور تجربہ کے مطابق نہیں ہوتیں۔
جو کچھ بھی خبر پر مبنی ہو (یعنی، جس میں کوئی بات کہی گئی ہو، جیسے کہ: "کھاؤ” یا "اگر تم کھاؤ گے تو ایسا ہوگا”، یا جس پر ثواب یا عذاب مرتب ہو)، اسے ہم سند کے لحاظ سے اچھی طرح دیکھتے ہیں تاکہ اس کی سند صحیح ہو، وہ علم قطیعی سے نہ ٹکراتی ہو، اور اس سے زیادہ مضبوط کسی علم سے متناقض نہ ہو۔
اگر یہ سب کچھ درست ہو، تو ہم اس پر عبادت کے طور پر عمل کرتے ہیں، چاہے ہمیں اس کی حکمت مکمل طور پر سمجھ نہ آئے۔
تمر کے بارے میں حدیث:
یہ حدیث صحیح بخاری اور مسلم میں آئی ہے، جیسا کہ سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
« جو شخص سات کھجوریں عجوہ صبح کے وقت کھائے، اُس دن نہ کوئی زہر اُس کو نقصان پہنچائے گا، اور نہ ہی جادو اُس پر اثر کرے گا۔ »
اس میں یہ نہیں بتایا گیا کہ یہ عجوة تمر کہاں کا ہونا چاہیے، لیکن ایک دوسری روایت میں مزید وضاحت آئی ہے، جیسا کہ مسلم میں ہے:
« جو شخص سات کھجوریں عجوہ صبح کے وقت کھائے، اُس دن نہ کوئی زہر اُس کو نقصان پہنچائے گا، اور نہ ہی جادو اُس پر اثر کرے گا۔ »
لابتان وہ زمینیں ہیں جو مشرقی اور مغربی حرة کہلاتی ہیں، جو سیاہ پتھروں والی زمینیں ہیں، جنہیں ایسا لگتا ہے کہ جیسے ان کو آگ سے جلایا گیا ہو۔
اور اسماعيل کی روایت میں آیا ہے:
« جو شخص صبح کے وقت سات عجوہ کھجوریں کھائے، جو کہ مدینہ کی کھجوروں میں سے ہوں، اُس دن نہ کوئی زہر اُس کو نقصان پہنچائے گا، اور نہ ہی جادو اُس پر اثر کرے گا » اور العالية وہ علاقے ہیں جو مدینہ کے بلند حصے میں ہیں، اور یہ نجد کی طرف واقع ہیں۔
اسی طرح سنن ابی داود میں مجاہد کی حدیث آئی ہے، جو سعد سے روایت ہے، انہوں نے کہا:
«میں بیمار ہوا تو رسول اللہ ﷺ میرے عیادت کے لیے آئے۔ آپ ﷺ نے اپنا ہاتھ میرے سینے کے درمیان رکھا، یہاں تک کہ میں نے اس کا ٹھنڈا اثر اپنے دل پر محسوس کیا۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا: ‘تمہیں بخار ہے، تمہارے جسم میں گرمائش ہے، تمہارے لیے حارث بن کلدہ کے پاس جانا ضروری ہے، جو کہ ثقیف قبیلے کے ایک شخص ہیں اور علاج کرتے ہیں۔ وہ تمہیں مدینہ کی عجوہ کھجوریں دیں گے، ان کی گٹھلیوں کے ساتھ انہیں پیس کر تمہیں لگائیں گے، اس سے تمہیں شفاء ملے گی۔‘»
اور «لِيَلُدَّكَ» کا معنی ہے کہ وہ تمہیں دوا کے طور پر یہ کھلائے گا۔
اس حدیث کا فقیہانہ مطلب یہ ہے کہ نبی ﷺ نے تمرِ مدینہ کی فائدہ کو یا تو وحی کے ذریعے جانا، اور پھر امت کو یہ خبر دی، اور یہ خاص طور پر تمرِ مدینہ کے لیے مخصوص ہے، جو اس حدیث میں ذکر کیا گیا ہے، نہ کہ کوئی اور غذا۔
یا نبی ﷺ نے یہ خبرت اور تجربے کے ذریعے جانا کہ زمین کے جو غذا اسی زمین میں پیدا ہوتی ہے، وہ بہتر ہوتی ہے، کیونکہ وہ زمین کے موسم، پانی اور ماحول سے ہم آہنگ ہوتی ہے، جیسے کہ حساسیت کا علاج، جس میں مقامی غذا سب سے زیادہ فائدہ مند ثابت ہوتی ہے، اور اسی طرح شہد بھی، جو کہ وہ شہد زیادہ فائدہ مند ہوتا ہے جو وہیں پیدا ہو جہاں وہ علاج کرانے والا رہتا ہو۔
اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ نبی ﷺ نے ایک مقامی اور قدرتی علاج کو اجاگر کیا، جو صرف مدینہ کے رہائشیوں اور ان کے پڑوسیوں کے لیے خاص تھا۔
اس کو مزید واضح کرنے والی بات ابو داود کی روایت ہے، جہاں نبی ﷺ نے حارث بن کلدة کو بطور طبیب تجویز دی، اور اگر تمر کا خود ہی شفا دینے والا اثر ہوتا، تو نبی ﷺ نے خود ہی اسے کھانے کی ہدایت دی ہوتی، لیکن انہوں نے طبیب سے علاج کروانے کی ہدایت دی کہ وہ تمر کو نواوں کے ساتھ ملا کر دوا کی صورت میں دے۔
قاضی عیاض نے کہا:
اس کا خاص طور پر عجوة مدینہ اور لابتین میں ذکر کرنا اس کی خصوصیت کو واضح کرتا ہے، اور یہ خاص طور پر مدینہ کے لیے ہے، جیسے کہ بعض دوا جو کسی مخصوص علاقے کی زمین میں پیدا ہوتی ہیں، وہ دوسرے علاقوں میں نہیں پائی جاتی، اس کی اپنی خاص تاثیر ہوتی ہے جو وہاں کی فضا یا زمین کی وجہ سے ہوتی ہے۔
یہ بات بھی واضح کرتی ہے کہ یہ سم کا اثر تھا، جو ایک مضبوط جسم اور مدافعتی طاقت کے ذریعے ہی جنگی جا سکتا تھا، اور تمرِ مدینہ اس میں مفید ثابت ہوا، جیسے ایک اینٹی ڈوٹ یا مصلح کے طور پر۔
جہاں تک سحر کی بات ہے، تو یہ ایک روحانی اور نفسیاتی اثر کا معاملہ زیادہ معلوم ہوتا ہے، اور یہ نبی ﷺ کے علم اور تجربے پر مبنی تھا۔
خلاصہ:
اس بات کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ان واقعات میں دو چیزیں اہم ہیں:
نبی ﷺ کی دعا اور برکت
مقامی غذائیں جو ان کے مخصوص علاقے کے اثرات کے مطابق شفا دیتی ہیں، جیسے تمرِ مدینہ کا اثر۔ ہم نے اس کا عملی مشاہدہ بھی کیا ہے، جیسے حضرت ابراہیم کی دعاؤں کا اثر مکہ کے لوگوں پر، جہاں لوگ رزق کمانے کے لیے کوشش کرتے ہیں، باوجود اس کے کہ وہ زمین کی خشک اور سخت حالت میں ہیں، اور یہ سلسلہ حضرت ابراہیم سے لے کر آج تک جاری ہے۔
اور نبی ﷺ کی وہ خاص تجربات جو انہوں نے اپنے صحابہ کرام کو بتایا، جیسے کہ عسل کا استعمال، حجامہ، مسواک اور سورج کی روشنی میں وضو نہ کرنا، وغیرہ، یہ سب تجربات اور علم پر مبنی تھے۔