View Categories

سوال318): کیا یہ کہنا جائز ہے کہ اگر نبی ﷺزندہہوتےتووہ یہ اوروہ کرتے؟

جواب:
پہلا:

نبی کے مختلف مقامات ہیں، جیسے تشریع، قضاء، فتویٰ، وعظ، سیاست شرعیہ اور بشریت کا مقام۔ ان مختلف مقامات کو سمجھنے اور عمل میں لانے میں فرق ہے۔

دوسرا:

 نبی نے کچھ اصول اور باتیں بیان کیں جو حالات کی تبدیلی کے باوجود مستقل ہیں، جیسے عقائد، اخلاق، عمومی آداب اور وہ چیزیں جو دین میں قطعی طور پر ضروری ہیں۔ اس کے علاوہ، نبی نے کچھ اجتہادی امور بیان کیے جو اپنے دور کے مطابق تھے، اور ان مسائل میں علماء کو اجتہاد کرنے کی آزادی دی، تاکہ وہ نئے مسائل پر اجتہاد کریں۔

لہذا یہ ضروری نہیں کہ نبی کا ہر عمل ہمارے دور میں بھی ویسا ہی ہو۔ مثلا، نبی نے مسواک استعمال کیا اور اس کی ترغیب دی، یہ نہ کہ مسواک کے فائدے کے لیے بلکہ صفائی کی اہمیت کے لیے تھا، اور ہم اسی مقصد کے لیے آج دانتوں کی صفائی کے دیگر طریقے استعمال کرتے ہیں، جیسے ٹوتھ برش۔

اس تناظر میں: "اگر نبی زندہ ہوتے تو وہ ایسا کرتےکا قول تفصیل سے دیکھا جانا چاہیے، اور اس میں اجتہاد کی آزادی کو تسلیم کیا جانا چاہیے۔ مثال کے طور پر نبی کا قول: ” اگر موسیٰ بن عمران (علیہ السلام) زندہ ہوتے، تو ان کے لیے کوئی راستہ نہ ہوتا سوائے میرے پیچھے چلنے کے ” (أحمد كى مسندكى روايت) سے یہی مراد ہے کہ نبی کی ہدایت ہمیشہ مؤثر اور اس پر عمل کرنے والا ہے۔

  یہ قول عائشہ رضی اللہ عنہا کا ہے: "اگر رسول اللہ کو عورتوں کے حال کا علم ہوتا جو انہوں نے نئے نئے کام کیے تھے تو وہ انہیں مسجد آنے سے روکتے جیسے بنی اسرائیل کی عورتوں کو روکا گیا تھا۔” [الشيخان كى روايت]

اس قول کی دو صورتیں ہو سکتی ہیں:

اگر یہ قول فرض عبادات کے بارے میں ہو، تو یہ درست ہے کیونکہ نبی کبھی بھی فرض کو ترک نہیں کرتے۔ مثال کے طور پر، اگر نبی زندہ ہوتے تو وہ فلسطین میں دفاعی جہاد کو ترک نہ کرتے، اور اگر وہ زندہ ہوتے تو وہ فقرا اور مساکین کے معاملات میں بہتری لاتے۔

اگر یہ قول نفل یا مستحب چیزوں کے بارے میں ہو، تو یہ بھی درست ہو سکتا ہے کیونکہ نبی نفل اعمال کو اہمیت دیتے تھے، جیسے ضیافت کرنا، راستوں کو آسان بنانا، اور اللہ کے راستے میں صدقہ و خیرات جمع کرنا۔

لیکن اگر یہ قول مباح یا دنیاوی معاملات کے بارے میں ہو یا کسی فقہی اختلاف سے متعلق ہو، تو یہ درست نہیں ہوگا کیونکہ اس میں نبی کے اختیارات پر دخل اندازی اور بغیر علم کے بات کرنا ہے۔ مثال کے طور پر، اگر کوئی یہ کہے کہ "اگر نبی زندہ ہوتے تو وہ موسیقی نہ سنتےتو یہ درست نہیں ہوگا کیونکہ اس میں فقہی اختلاف موجود ہے، یا "اگر نبی زندہ ہوتے تو وہ داڑھی نہ منڈواتے"۔ اس طرح کے اقوال افتراء اور نبی کی شان کے خلاف ہیں، اور اس میں علم کا فقدان ہے۔ اسی طرح، جو شخص جان بوجھ کر نبی کے بارے میں جھوٹ بولے، اسے سخت عذاب کا سامنا ہوگا، جیسا کہ حدیث میں ہے: "جو شخص جان بوجھ کر میرے بارے میں جھوٹ بولے، وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنالے” [ الشيخان كى روايت]۔