View Categories

سوال46) جب امام نے عصر کی نماز پڑھی اور پہلی رکعت میں فاتحہ کی تلاوت بلند آواز سے شروع کی، پھر خود ہی متوجہ ہو کر خاموشی سے تلاوت مکمل کی، تو اس کا کیا حکم ہے؟

جواب)

اول:

 نماز کا اصل مقصد اتباع ہے، جیسا کہ نبی ﷺ کا فرمان ہے: «صَلُّوا كَمَا رَأَيْتُمُونِي أُصَلِّي» (نماز اسی طرح پڑھو جیسے تم مجھے پڑھتے دیکھتے ہو)۔ لہذا، ہم ان مقامات پر جہاں نبی ﷺ نے بلند آواز سے پڑھا، بلند آواز سے پڑھیں گے، اور جہاں آپ نے خاموشی سے پڑھا، خاموشی سے پڑھیں گے۔ جو اس میں اختلاف کرے گا، اس نے سنت کی مخالفت کی ہے، لیکن اس کی نماز بنیادی طور پر صحیح ہے۔

دوسرا:

 علماء کے درمیان اس بات پر اختلاف ہے کہ بلند آواز اور خاموشی کے مقامات پر کیا حکم ہے

مالکیہ، شافعیہ اور حنبلیہ کے جمهور کے نزدیک بلند آواز اور خاموشی دونوں سنتیں ہیں۔

جبکہ ہمارے مکتب فکر کے ائمہ کا کہنا ہے کہ یہ واجبات میں شامل ہیں، کیونکہ نبی ﷺ نے ان کا بار بار اہتمام کیا ہے، اور یہ واجب قراءت کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔

نتیجہ

ہمارے نزدیک، اگر کوئی شخص خاموشی کے مقام پر بلند آواز سے پڑھے یا بلند آواز کے مقام پر خاموشی سے پڑھے تو اس کی نماز صحیح ہے، لیکن اس پر واجب ہے کہ وہ سجدہ سہو کرے۔

مالکیہ اور حنبلیہ کے نزدیک، اگر کوئی شخص سنت کے مطابق بلند آواز یا خاموشی سے نہ پڑھے تو اس کی نماز صحیح ہے اور اگر وہ سہو سے کرے تو اس کے لئے سجدہ سہو مستحب ہے، جبکہ جان بوجھ کر کرنے پر سجدہ نہیں ہے۔

شافعیہ کے نزدیک، بلند آواز اور خاموشی کی سنتوں کی مخالفت پر سجدہ سہو واجب نہیں ہے، چاہے قراءت لمبی ہو یا مختصر۔ہم جو فتویٰ دیتے ہیں وہ ہمارے احناف کے سادات کا رائے ہے، کیونکہ نماز میں خاص عبادتی نظام ہے جو روایت پر قائم ہے، اور روایات میں بلند آواز اور خاموشی کی تمیز پر اتفاق ہے۔ مزید یہ کہ قراءت خود ہی واجب ہے، تو اسے پڑھنے کے طریقے (بلند آواز یا خاموشی) کی پیروی بھی واجب ہے۔ اگر کسی نے جان بوجھ کر اس میں تبدیلی کی تو اس نے گناہ کیا، اور اگر بھول کر کی تو اس کا مغفور ہونا ممکن ہے، اور دونوں صورتوں میں سجدہ سہو لازم ہے۔