View Categories

سوال51): اگر کوئی شخص اپنے گھر سے ہوائی اڈے کی طرف نکلتا ہے اور مغرب کا وقت آ جاتا ہے جب وہ ہوائی اڈے پر ہوتا ہے، کیا وہ نماز قصر کر سکتا ہے اور نمازیں جمع کر سکتا ہے؟

جواب)

 اس کے مختلف حالات ہیں

اگر ہوائی اڈہ شہر کی حدود میں ہے اور اس سے زیادہ دور نہیں ہے جتنی مسافت قصر ہے، یعنی 83 کلومیٹر، تو اس کے لیے جمع کرنا تو ہے مگر قصر نہیں کر سکتا، اس پر تمام اہل علم کا اتفاق ہے سوائے احناف کے۔

اگر ہوائی اڈہ شہر کی حدود سے زیادہ دور ہے، یعنی مسافت قصر سے زیادہ ہے، تو اس کے لیے نمازیں قصر کرنے اور جمع کرنے کی اجازت ہے، یہ بھی اہل علم کے عمومی مسلک کے مطابق ہے، سوائے احناف کے۔

سفر کے دوران سنت نمازوں کا معاملہ سفر کی طوالت پر منحصر ہے۔ اگر سفر کا دورانیہ قصر کی مدت سے زیادہ ہے، یعنی پندرہ دن، تو اس کے لیے سنتیں پڑھنے کی اجازت ہے۔ اگر سفر کا دورانیہ قصر سے کم ہے اور وہ نماز قصر کر رہا ہے، تو اس کے لیے سنت نمازوں میں مختلف آراء پائی جاتی ہیں۔

تفصیل یہ ہے کہ

پہلا:

ایک گروہ کے مطابق وہ سنتیں ہیں جو سفر اور حضر دونوں میں پڑھی جاتی ہیں، جیسے فجر کی سنت اور وتر کی نماز۔

دلیل اس کی یہ ہے کہ کئی صحابہ کرام سے یہ روایت ہے، جیسے عائشہ اور ابن عمر، کہ نبی ﷺ کبھی بھی فجر کی دو رکعتوں کو چھوڑتے نہیں تھے، چاہے وہ سفر میں ہوں یا حضر میں، صحت کی حالت میں ہوں یا بیمار۔

دوسرا:

 مطلق نفل جیسے قیام اللیل
اور اس پر بھی اہل علم کا اس بات پر اتفاق ہے کہ سفر میں اس کا پڑھنا جائز ہے۔

تیسرا:

راتب نفل جیسے سنت ظہر، مغرب اور عشاء
اس میں ہمارے مکتب فکر کے اہل علم اور دوسرے مکاتب فکر کے اہل علم کے درمیان اختلاف ہے۔
اور آراء کا خلاصہ یہ ہے

پہلا قول:

کہ سفر میں اس کا پڑھنا جائز ہے، اور یہ اہل علم کی اکثریت کا مذہب ہے، اور اس پر اکثر صحابہ اور ائمہ کا عمل ہے، یہ مکتب مالکیہ اور شافعیہ کا بھی مذہب ہے، اور یہ حنفیہ اور حنبلیہ میں بھی ایک قول ہے، کیونکہ نبی ﷺ اور صحابہ سے اس کی دلیل موجود ہے۔

دوسرا قول:

کہ یہ صرف نزول کی حالت میں مشروع ہے، نہ کہ سفر کی حالت میں، اور یہ بعض حنفیوں کا قول ہے۔

تیسرا قول:

کہ یہ حالت امن میں مشروع ہے، نہ کہ خوف کی حالت میں، اور یہ بھی احناف کا ایک نظریہ ہے۔

چوتھا قول:

کہ مسافر کو راتب سنن کی نماز پڑھنے یا چھوڑنے کا اختیار ہے، اور یہ حنبلیوں کا مذہب ہے۔

پانچواں قول: کہ سفر میں قصر کی حالت میں راتب سنن نہیں پڑھی جائے گی، اور یہ ابن عمر اور بعض سلف کا مذہب ہے، اور بعض حنفیوں اور حنبلیوں جیسے ابن تیمیہ کا بھی یہی خیال ہے۔