View Categories

سوال295):فقہاء نے اس بات کو دلائل سے ثابت کیا ہے کہ جو شخص اپنے حق کو چھینے یا ٹالے، اس کے خلاف حق حاصل کرنے کے لیے تدابیر اختیار کرنا جائز ہے۔ اس بات کو ثابت کرنے کے لیے مختلف دلائل پیش کیے گئے ہیں،

جواب:

اللہ تعالیٰ کا فرمان:
{
اگر تمہیں کسی کی طرف سے کوئی بدلہ ملے تو اتنا ہی بدلہ لو جتنا تمہیں تکلیف دی گئی ہو، لیکن اگر تم صبر کرو تو یہ صبر کرنے والوں کے لیے بہتر ہے [نحل: 126]
{ اگر تمہیں کسی کی طرف سے کوئی بدلہ ملے تو اتنا ہی بدلہ لو جتنا تمہیں تکلیف دی گئی ہو، لیکن اگر تم صبر کرو تو یہ صبر کرنے والوں کے لیے بہتر ہے۔ } [شورى: 40]

اہل علم میں سے بعض نے اس بات کی اجازت دی ہے کہ حق کو حاصل کرنے کے لیے تدابیر اختیار کی جا سکتی ہیں۔ حنفیہ اس کی اجازت دیتے ہیں، شافعیہ نے اس کے لیے کچھ شرائط رکھی ہیں، اور بعض مالکیہ نے بھی اس کو جائز قرار دیا ہے۔ امام ابن سيرين، امام ابراہیم، امام ابن حزم، امام ابن المنذر اور دوسرے بہت سے فقیہ نے بھی اس بات کو تسلیم کیا ہے۔

امام القرطبی نے حدیث سے استدلال کیا ہے، جس میں نبی نے فرمایا: «انصر أخاك ظالمًا أو مظلومًا»، اور کہا: "ظالم سے حق لینا اس کی مدد کرنا ہے۔"

حنابلہ اور بعض مالکیہ کا کہنا ہے کہ حق صرف یا تو مکمل طور پر وصول کیا جا سکتا ہے یا پھر عدلیہ کے حکم کے ذریعے۔ انہوں نے اس کے لیے نبی کی حدیث کو بطور دلیل پیش کیا: «أدِّ الأمانة لمن ائتمنك، ولا تخن من خانك»، تاہم اس حدیث کی صحت پر مختلف محدثین نے اختلاف کیا ہے۔

تیسرا:
ہمیں یہ اختیار کرنا چاہیے کہ ظالم یا اس شخص سے حق حاصل کرنا جائز ہے، لیکن اس کے لیے کچھ شرائط ہیں:

حق کی اصل قیمت کو حاصل کرنا، نہ کہ اس سے زیادہ۔

مالِ حق پر نقصان نہ پہنچانا، خاص طور پر ایسی چیزوں کا چھیننا جو صرف اس مقصد کے لیے استعمال ہو سکتی ہوں۔

حق حاصل کرنے سے کوئی بڑا نقصان یا بدنامی نہ ہو، جیسے کہ شہرت کا نقصان یا عدلیہ کا نقصان۔

حق کا حصول صرف اس شخص سے ہو جو اسے چھپائے، نہ کہ اس کے شراکت داروں یا اس کے خاندان والوں سے۔

اگر وہ مال نہیں ملتا تو اس کی قیمت طے کی جائے، لیکن صرف اس کی اصل قیمت، نہ کہ اصل مال کی قیمت۔