View Categories

سوال20: انسان روح اور جسم ہے، تو کیا باقی مخلوقات جیسے جانور، مچھلیاں، اور پرندے بھی روح رکھتی ہیں؟ اور اس کا شرعی دلیل کیا ہے؟

جواب:

 اللہ تعالی نے انسان کو پیدا کیا اور اسے عزت دی، اور اپنی روح اس میں پھونکی۔ انسان کی حقیقت میں دو چیزیں ہیں: روح اور جسم۔ انسان تب تک زندہ رہتا ہے جب تک اس کی روح موجود رہتی ہے۔ اور جب روح نکل جاتی ہے تو جسم فاسد ہو جاتا ہے۔ اس بات پر اہلِ دین، فلسفیوں اور دیگر افراد کا اتفاق ہے کہ انسان میں روح ہے

ہاں، جانوروں میں بھی روح اور جسم ہوتے ہیں، اور ان کی موت بھی اسی وقت ہوتی ہے جب روح جسم سے نکل جاتی ہے۔ اللہ تعالی نے فرمایا:
{
اور کوئی بھی چلنے والی مخلوق زمین میں نہیں ہے اور نہ ہی کوئی پرندہ جو اپنے پر سے اُڑتا ہو، مگر وہ تمہاری طرح امتیں ہیں۔” } [انعام: 38]۔
اس آیت سے یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ جانوروں میں بھی انسانوں کی طرح روح اور جسم کا مجموعہ ہوتا ہے۔ امام سیوطی نے "الإكليل” میں اس پر تفصیل دی ہے اور ذکر کیا ہے کہ ایک مرتبہ حضرت انسؓ سے سوال کیا گیا کہ جانوروں کی روح کون قبض کرتا ہے؟ تو حضرت انسؓ نے فرمایا کہ یہ کام "ملک الموت” کرتا ہے۔ پھر جب یہ بات حضرت حسنؓ تک پہنچی تو انہوں نے فرمایا کہ یہ بات درست ہے اور قرآن میں اس کا ذکر ہے، پھر انہوں نے یہ آیت تلاوت کی۔

ایک حدیث میں بھی آیا ہے، جو طبرانی نے "المعجم الكبير” میں روایت کی ہے (اگرچہ بعض محدثین نے اس کی صحت پر سوال کیا ہے)، کہ جب جبریل علیہ السلام نے نبی سے کہا:
"واللہ محمد
! اگر میں ایک مچھر کی روح قبض کرنا چاہوں تو میں اس پر قادر نہیں ہوں جب تک اللہ تعالی مجھے حکم نہ دے۔"
اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ مچھر کے پاس بھی روح ہوتی ہے۔

سنت میں یہ بھی آیا ہے کہ اللہ تعالی جانوروں سے بھی انصاف کرتا ہے، جیسے انسانوں سے کرتا ہے۔ عبد الرزاق نے "المصنف” میں حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت نقل کی کہ اللہ تعالی قیامت کے دن تمام مخلوقات کو محشور کرے گا، جن میں جانور، پرندے اور ہر نوع کی مخلوق شامل ہوگی۔ اس دن اللہ کا عدل اس قدر غالب ہوگا کہ وہ بغیر سینگ والی بزی سے سینگ والی بزی کا حساب لے گا۔ پھر اللہ تعالی فرمائے گا: "اب تم مٹی بن جاؤ”۔ یہی وجہ ہے کہ کافر قیامت کے دن کہے گا:
{ یقیناً ہم نے ان کو ایک آتھ مرتبہ عذاب میں مبتلا کیا، لیکن وہ باز نہ آئے، اور وہ کافر تھے۔ } [نبأ: 40]۔

اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ جانوروں کی بھی روح ہے اور اللہ ان سے انصاف بھی کرتا ہے۔

جواب:

امام سیوطی نے ذکر کیا کہ ملائکہ موت کے چار ہیں، ہر ایک کا کام مختلف قسم کی ارواح قبض کرنا ہے؛ ایک انسانوں کی روح قبض کرتا ہے، دوسرا جنوں کی، تیسرا شیاطین کی، اور چوتھا جانوروں، پرندوں اور مچھلیوں کی ارواح قبض کرتا ہے۔ تاہم، سیوطی نے اس کا کوئی خاص دلیل ذکر نہیں کیا، لیکن کئی مفسرین جیسے ابن عجیبة (بحر المديد) اور الآلوسی (روح المعانی) نے یہ رائے دی ہے کہ روح قبض کرنے والا ملکہ موت ایک ہی ہے، جو انسانوں، جنوں اور جانوروں کی ارواح قبض کرتا ہے۔

ایسی احادیث بھی آئی ہیں جو اس بات کو ثابت کرتی ہیں کہ پرندوں کی بھی روح ہوتی ہے، مثلاً:

مسلم نے سعید بن جبیر سے نقل کیا کہ ابن عباسؓ نے نبی سے روایت کی کہ آپ نے فرمایا:
"کسی ایسی چیز کو غرض نہ بناؤ جس میں روح ہو۔”
(مسلم)

طبرانی نے "المعجم الكبير” میں عکرمہ سے نقل کیا کہ ابن عباسؓ نے کہا:
"رسول اللہ
نے حکم دیا تھا کہ پرندوں کو غرض کے طور پر نہ استعمال کیا جائے۔"
(طبرانی)

احمد نے سعید بن جبیر سے روایت کیا کہ انہوں نے ابن عمرؓ کے ساتھ سفر کیا، اور وہ قریش کے کچھ لڑکوں کے پاس سے گزرے جو پرندوں کو نشانہ بنا رہے تھے۔ جب ابن عمرؓ نے انہیں دیکھا تو وہ بکھر گئے، اور ابن عمرؓ نے کہا:
"جو شخص یہ کام کر رہا ہے، اللہ کی لعنت ہو اس پر، رسول اللہ
نے اس شخص پر لعنت کی جو کسی جاندار کو غرض کے طور پر استعمال کرے۔"
(احمد)

اس کے علاوہ، ابن عباسؓ نے مصور کو کہا تھا:
"اگر تمہیں کچھ بنانا ہی ہے تو درخت یا ایسی چیز بناؤ جس میں روح نہ ہو۔”
(مسلم)

یہ تمام روایات اس بات کو ثابت کرتی ہیں کہ پرندوں اور دیگر جانداروں کی بھی روح ہوتی ہے، اور اسلام میں ان کی حرمت کا احترام ضروری ہے۔