View Categories

سوال8):براہِ کرم درج ذیل مسئلے کی شرعی وضاحت کریں جو اہلِ سنت والجماعت، خاص طور پر بلادِ شام میں، ایک بڑا اختلاف پیدا کر رہا ہے:غزہ میں ہمارے بھائیوں کے کئی ہفتوں سے بہتے ہوئے خون کے بعد، اور اس دوران «حزب اللہ» جماعت کی اس پیمانے پر شمولیت نہ ہونے کے باعث جو ان کی تعریف کے مطابق ہونی چاہیے تھی، کہ وہ اقصیٰ کے سپاہی اور فلسطین کے آزاد کرنے والے ہیں، یا اس پیمانے پر جو اس معرکے اور بہائے گئے خون اور کی جانے والی قتل و غارت کے مطابق ہو، اب ان کی شمولیت پہلے سے زیادہ زیرِ بحث ہے۔

 

اس کے سبب ایک سوال ابھرتا ہے کہ ان کی شمولیت کے بارے میں کیا مؤقف اختیار کیا جائے: خوشی اور تعریف، خاموشی، یا مخالفت؟
یقیناً یہ سوال ان سوالات میں سے ایک ہے جو امتِ مسلمہ کے عام مسائل اور خاص طور پر فلسطین اور شام کے مسائل میں سب سے زیادہ اختلاف پیدا کرتا ہے۔

ایک طرف: فلسطین کے بعض بھائی کہتے ہیں:
"دشمن ہمیں مار رہے ہیں، ہم نسل کُشی کے دہانے پر ہیں، دنیا کے سامنے ہمارا وجود ختم ہو رہا ہے، اور امت نے ہمیں چھوڑ دیا۔ ہمارے ساتھ صرف یہ شیعہ جماعتیں کھڑی ہیں، تو کیا آپ ہم سے خوشی کا یہ حق چھینتے ہیں جو ہماری مشکلات کو کم کر رہی ہیں، صرف اس لیے کہ وہ شیعہ ہیں؟”

دوسری طرف: شام کے ہمارے بھائی کہتے ہیں:
"ہم آپ کے ساتھ ہیں کیونکہ یہ تمام مسلمانوں کا مسئلہ ہے، اور ہم آپ کے دکھ کو سب سے زیادہ سمجھتے ہیں کیونکہ ہم خود ایسی ہی حالت میں جی رہے ہیں۔ لیکن کیا آپ ان جرائم اور قتل و غارت کو نہیں دیکھتے جو اس جماعت نے ہمارے بچوں اور عورتوں کے خلاف کیے، جو قابض فوج کے جرائم سے کم نہیں بلکہ زیادہ ہیں؟ کیا آپ ہمارے خون اور حقوق کا لحاظ رکھتے ہوئے ان قاتلوں کی تعریف سے اجتناب نہیں کر سکتے، جیسا کہ ہم آپ کے خون اور حقوق کا لحاظ کرتے ہیں؟”
تواس مسئلے میں شرعی رائے کیا ہے؟

جواب


دو چیزوں میں فرق کرنا ضروری ہے: موالات (دوستی) اور کسی چیز پر خوشی یا مسرت۔
ہر وہ شخص جو ہمیں خوشی دیتا ہے، ضروری نہیں کہ ہم اس کے ساتھ دوستی کریں۔ نبی کریم
اور صحابہ کرام کو روم کے نصرت پانے پر خوشی ہوئی، لیکن انہوں نے ان سے دوستی نہیں کی بلکہ ان کی فتح کی تمنا کی اور اس کے لیے دعا کی۔
اسی طرح، ضروری نہیں کہ ہر وہ شخص جس سے دوستی ہو، ہمیں خوش کرے۔ ایک مسلمان دوسرے مسلمان سے دوستی رکھتا ہے، چاہے اس سے تکلیف پہنچے۔ لیکن یہ تکلیف دوستی توڑنے یا براءت کا سبب نہیں بنتی، جیسا کہ حاطب بن ابی بلتعة کے واقعے میں ہوا، جہاں ان کے فعل سے نبی کریم
کو دکھ پہنچا، لیکن حضرت عمرؓ کے مطالبے کے باوجود آپ نے ان سے براءت اختیار نہیں کی۔
یہی وہ توازن ہے جو ہمیں معاملات میں اپنانا چاہیے۔

دوسرا نکتہ:
عمومی طور پر شیعہ اہلِ قبلہ میں شامل ہیں، اگرچہ وہ بعض اصولی مسائل، جیسے ائمہ کی عصمت، اور کئی فروعی مسائل، جیسے نماز، اذان، اوقاتِ نماز، رمضان، جمع، اور متعہ وغیرہ میں ہم سے اختلاف رکھتے ہیں۔
سیاسی امور میں بھی ان کا اختلاف ہے، جیسے ولایتِ فقیہ اور مہدی کے نزول کا تصور۔
لیکن کسی مستور الحال (جس کے حالات چھپے ہوں) یا مجہول الحال (جس کی حقیقت معلوم نہ ہو) کا حکم تبدیل ہو سکتا ہے، اگر یہ ثابت ہو جائے کہ وہ قرآن کی عصمت پر حملہ کرتا ہے، صحابہ کو کافر قرار دیتا ہے، یا امہات المؤمنینؓ کی گستاخی کرتا ہے۔ ایسے شخص کو سچے نبی کی خبر کا انکار کرنے والے کے حکم میں رکھا جائے گا، اور یہ کفر کے زمرے میں آتا ہے، بشرطیکہ حجت قائم ہو اور شبہات دور کیے جائیں۔

تیسرا نکتہ:
امت کے عمومی مسائل میں لوگوں پر یکساں حکم لگانا جائز نہیں، کیونکہ امت کے مسائل مختلف اور متنوع ہیں، خاص طور پر اجتہادی معاملات میں۔
مثال کے طور پر: حضرت زبیرؓ اور حضرت طلحہؓ نے امت کے عمومی مسائل میں کردار ادا کیا، لیکن جنگِ جمل میں حضرت علیؓ کے خلاف لڑے۔ ہم ان کی جہادی خدمات کو قبول کرتے ہیں اور ان کے اس عمل کو مسترد کرتے ہیں جو خلیفہ رسول اللہ
کے خلاف تھا۔
اسی طرح حضرت معاویہؓ کی شام میں اسلام کے استحکام اور ان کی دیگر خدمات کی تعریف کی جا سکتی ہے، لیکن جنگِ صفین میں حضرت علیؓ کے خلاف ان کے اقدام کو ناپسند کیا جاتا ہے۔
اسی طرح بنو امیہ کی فتوحات اور اسلام کے لیے ان کی خدمات کو سراہا جاتا ہے، لیکن ان کے بعض ظالم حکمرانوں اور عرب و عجم کے درمیان تفریق پر تنقید کی جاتی ہے۔
یہی اصول دیگر اسلامی حکومتوں، جیسے بنو عباس، ترکوں، اندلسیوں اور مغربی حکمرانوں پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ ان کے اچھے اور برے پہلو دونوں کو انصاف کے ساتھ دیکھنا چاہیے۔
تعمیم کے خطرے سے بچنا ضروری ہے، جیسا کہ بعض لوگ اسلامی خلافت کے زوال پر ماتم کرتے ہیں، حالانکہ خلافت میں بھی کئی نقائص تھے، جیسے ظلم، کمزوروں اور بچوں کی حکمرانی، اور فاسد حکمرانوں کی تقرری۔

چوتھا نکتہ:
حزب اللہ ایک شیعہ مذہبی اور سیاسی تحریک ہے، جو ولایتِ فقیہ پر ایمان رکھتی ہے۔ ان کی وفاداری امتِ مسلمہ کے مجموعی مسائل کے بجائے ولایتِ فقیہ کے مفادات سے جڑی ہوئی ہے۔
یہ جماعت مسلمانوں کے ساتھ ایمان کی بنیادی قدریں تو شیئر کرتی ہے، لیکن ان کے تمدنی منصوبے سے اختلاف رکھتی ہے۔

اور ان پر حکم ان دو معیارات کے مطابق ہوگا۔
یہ نہ تو ایسا قریب ہے جس سے مکمل نفع کی امید ہو، اور نہ ایسا دشمن جو مکمل طور پر دشمنی رکھتا ہو، جیسے صہیونیوں کی مثال۔
اسی بنیاد پر کسی موقع پر ان کی تعریف کی جا سکتی ہے اور کسی دوسرے موقع پر مذمت، اور یہ زیادہ تر
سیاست شرعیہ کے دائرے میں آتا ہے۔

مثال کے طور پر، جنگ عظیم اول میں تین پاشا حکمرانوں کا معاملہ: ہم ان کے ظلم، ترک تعصب، اور عرب و عجم کے شہریوں پر ان کے جبر سے نفرت کرتے ہیں، لیکن اس کے ساتھ ساتھ روس، یونان، اور آرمینیوں جیسے دشمنوں کے خلاف ان کی کسی بھی فتح پر خوشی محسوس کرتے ہیں۔

اسی طرح اگر حزب اللہ صہیونیوں سے جنگ کرے تو ہم اس حوالے سے ان کے لیے دعا کریں گے، لیکن اگر وہ شام یا کسی اور جگہ ہمارے بھائیوں کے خلاف جنگ کریں تو اس پر ان کے خلاف دعا کریں گے۔
یہی ایک معتدل معیار ہے۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
"اے ایمان والو! اللہ کی خاطر انصاف پر قائم رہو اور انصاف کی گواہی دو، اگرچہ وہ تمہارے اپنے خلاف ہو یا والدین اور قریبی رشتہ داروں کے خلاف۔”
(مائدہ: 8