جواب:
پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ شرعی طور پر کسی کی جائیداد میں
تصرف کرنے کے لیے اس کی زندگی میں کوئی پابندی نہیں ہے، جب تک کہ وہ شخص عقل و ہوش میں ہے اور اس کے تصرفات پر کوئی قانونی یا شرعی رکاوٹ نہیں ہے (جیسے قرض یا جنون کی حالت میں)۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ شخص اپنی جائیداد میں بیچنے، تحفہ دینے، یا تقسیم کرنے کا حق رکھتا ہے، اور اس میں کسی کو اعتراض کرنے کا حق نہیں ہوتا جب تک کہ وہ خود اس تصرف میں کوئی غیر شرعی کام نہ کرے۔
دوسری بات یہ ہے کہ وراثت صرف موت کے بعد ہی بنتی ہے، اس سے پہلے کسی کو میراث کا حق نہیں ہوتا۔ لہٰذا یہ کہنا کہ "میرے بعد تمہیں کچھ چاہیے یا نہیں” اس لحاظ سے غلط ہے کیونکہ وہ ابھی زندہ ہے اور اس کے تصرفات کا کوئی تعلق وراثت سے نہیں ہے۔ کسی بھی شخص کا حق نہیں ہے کہ وہ دوسرے کے تصرفات میں مداخلت کرے، جب تک کہ وہ شخص ان تصرفات کو غلط یا غیر شرعی طریقے سے نہ کر رہا ہو۔
اس صورت میں، اس خاتون کا یہ کہنا کہ "کیا تمہیں میری جائیداد سے کچھ چاہیے” ایک غیر ضروری سوال تھا، کیونکہ اس کے جائیداد کے بارے میں ان کے وراثتی حقوق ابھی شروع نہیں ہوئے ہیں، اور اس کے بھائی بہنوں کو اس پر شرم کی وجہ سے جواب دینا ضروری نہیں تھا
المورث (جو شخص اپنے مال کو تقسیم کرنے والا ہے) کو اپنے زندگی میں کسی بھی معاہدے کو نافذ کرنے کے لیے وارثوں کی اجازت کی ضرورت نہیں ہے۔ یعنی وہ شخص اپنی زندگی میں اپنے مال یا جائیداد میں کوئی تبدیلی کر سکتا ہے یا کسی کو تحفہ دے سکتا ہے، بشرطیکہ وہ اس میں وصیت کرنے والے نہ ہو (جو کہ بعد از موت لاگو ہوتی ہے)۔ اگر وہ اپنی زندگی میں اپنی جائیداد کسی کو منتقل کر دے، تو یہ تصرف شرعاً جائز ہے، بشرطیکہ وہ کسی کو غیر منصفانہ طور پر زیادہ نہ دے۔ اس کے فیصلے میں وہ شرعی طور پر صحیح ہے، لیکن اس کے دیانت داری کے حوالے سے وہ اپنی نیت کو جائز رکھے۔اس کی دلیل وہ حدیث ہے جو ابو بکر اور دیگر صحابہ کے واقعات میں آئی، جیسے حضرت عائشہ کے لیے ابو بکر کا تحفہ دینا۔